عام انتخابات کا انعقاد اب مہینوں نہیں بلکہ چند ہفتوں کی بات ہے ۔ انتخابی عمل سے بطور سیاسی جماعت باہر ہونے والی پاکستان تحریک انصاف جس کے آزاد امیدواروں کی جانب سے الیکشن کمیشن کے دیئے گئے انتخابی نشانات پر منفی ردعمل دیکھنے میں آ رہا تھا اب انہی نشانات پر انہیں الیکشن لڑنا پڑے گا۔ الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کو واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ کا عمل شروع ہو چکا لٰہذا اس موقع پر کسی بھی امیدوار کے انتخابی نشان میں تبدیلی ممکن نہیں رہی تاہم کسی فرد واحد کے معاملے پر اگر انتخابی نشان کی تبدیلی ناگزیر ہو تو بھی یہ تبدیلی الیکشن کمیشن حکام کی اجازت سے مشروط ہو گی ۔ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں کو 146 جبکہ آزاد امیدواروں کے لئے 177 انتخابی نشانات مختص کئے ہیں ۔
اب کچھ بات کریں سیاست کی تو راولپنڈی کے سیاسی میدان سے تحریک انصاف کیلئے کچھ اچھی خبر نہیں ۔ کیونکہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 56 سے امیدوار اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور این اے 57 سے امیدوار راشد شفیق کو 9 مئی کے مقدمات میں ضمانت خارج ہونے پر راولپنڈی کی عدالت سے گرفتار کر لیا گیا ۔ یہ گرفتاری بھی ان کے ووٹرز کیلئے مایوس کن یوں ہو گی کہ وہ اب انتخابی مہم نہیں چلا سکیں گے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پی ٹی آئی اور عوامی مسلم لیگ کا ووٹر حنیف عباسی اور دانیال چودھری کیلئے 8 فروری کو میدان کھلا چھوڑ دیں گے ۔ انہیں بہرحال اپنا ووٹ لینے کیلئے محنت کرنا ہو گی ۔ کیونکہ ماضی میں بھی کئی سیاستدان جیل سے الیکشن لڑتے رہے ہیں ۔
پی ٹی آئی کی مشکلات اس لئے بھی کم نہیں ہو پا رہیں کہ جہاں 9 مئی کے بعد پارٹی کا شیرازہ بکھرا اور بڑے بڑے نام جو دائمی وفاداری کا دعویٰ کرتے تھے اب اس جماعت میں نہیں رہے تو دوسری طرف پی ٹی آئی کو انتخابی نشان الاٹ نہ کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی حمایت کرنے والے جے یو آئی شیرانی گروپ نے بھی پی ٹی آئی سے اتحاد ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ اب بات فیصلے کی چل ہی نکلی ہے تو کچھ ذکر سوشل میڈیا پر ہونے والی ہرزہ سرائی کا بھی کر لیتے ہیں ۔ چونکہ ماضی میں بھی تحریک انصاف خصوصاً اور دیگر سیاسی جماعتیں عموماً مرضی کے عدالتی فیصلوں پر سر تسلیم خم کرتی رہی ہیں اور مرضی کے برخلاف فیصلہ آنے پر اناب شناب کہنے سے باز نہیں آتیں ۔مگر پاکستان تحریک انصاف نے تنقید کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے کسی بھی آئینی عہدے پر فائز شخصیات کی تضحیک کی جو روایت ڈالی وہ اس سے پہلے کسی سیاسی جماعت کی طرف سے دیکھنے میں نہیں آئی ۔
اب بلے کے انتخابی نشان کا فیصلہ آنے کے بعد سے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل اور بیرون ملک مقیم کارکنان چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تضحیک کرکے اپنے ہی ماضی کے ریکارڈ بھی توڑ رہے ہیں ۔ اس کی تحقیقات کیلئے وزارت داخلہ نے 6 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے جو ان واقعات کی تحقیقات کر کے اپنی رپورٹ مرتب کرے گی ۔
کچھ بات کرتے ہیں پاکستان مسلم لیگ ن اور ق لیگ کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ۔ صورتحال کے تناظر میں بظاہر تو یہی دکھائی دے رہا تھا کہ چودھری شجاعت حسین کی قیادت میں ق لیگ لیگی ساتھیوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے اپنی مطلوبہ نشستیں حاصل کر لے گی مگر ایسا نہیں ہو سکا اور یہ معاملہ بھی طول پکڑ چکا ہے ۔ گجرات سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق دونوں جماعتوں کے درمیان معاملات طے نہیں پا سکے ۔ کیونکہ مسلم لیگ ق کی طرف سے 2018ء کی طرز پر قومی اسمبلی کی 4 اور صوبائی اسمبلی کی 8 نشستوں کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ جس پر مسلم لیگ ن کی جانب سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی2،2 نشسستوں کی حامی بھری گئی۔ صدر مسلم لیگ ن گوجرانوالہ ڈویژن عابد رضا کوٹلہ کے مطابق پارٹی نے ضلع گجرات کیلئے آزاد پینل تشکیل دے دیا ہے جو چند روز میں صوبائی صدر رانا ثناء اللہ کی ہدایت ملتے ہی انتخابی مہم بھی شروع کر دے گا ۔ اب پرویز الہیٰ اور مونس الہیٰ کی پارٹی سے علیحدگی کے بعد مسلم لیگ ق اتنی طاقتور تودکھائی نہیں دے رہی جس قدر 2018ء میں تھی اور شاید اس کے اثرات انتخابی نتائج پر بھی مرتب ہوں ۔
اب پنجاب ہی کی سیاست کی کچھ بات کریں تو مسلم لیگ ن بھی چیف آرگنائزر مریم نواز کی قیادت میں انتخابی دنگل میں بھرپور قوت کے ساتھ اتر چکی ہے ۔ جلد ہی قائد مسلم لیگ ن میاں نواز شریف بھی ملک کے اہم حلقوں میں انتخابی مہم شروع کرنے جا رہے ہیں ۔ پارٹی ذرائع کے مطابق نواز شریف کی انتخابی مہم کے شیڈول میں تبدیلی کی گئی ہے جس کے مطابق اب وہ 60 سے زائد جلسے کریں گے ۔ مسلم لیگ ن کیلئے پنجاب کے اہم حلقوں میں انتخابی مہم اس لئے بھی آسان ہو گئی ہے کیونکہ ان کے راستے سے بلے کی دیوار ہٹ چکی ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں مسلم لیگ ن کیلئے تخت پنجاب کا حصول جو بلے کے چھن جانے سے قبل خاصا مشکل دکھائی دے رہا تھا اب آسان ہو گیا ہے۔
ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی پنجاب میں پنجے گاڑھنے کی کوشش کر رہی ہے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سابق وزیراعظم شہباز شریف جن کے وہ پی ڈی ایم کی حکومت میں گن گاتے نہیں تھکتے تھے کے ساتھ ساتھ قائد مسلم لیگ ن میاں نواز شریف پر بھی کڑی تنقید کر رہے ہیں اور پنجاب کے عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن پرانی اور انتقامی سیاست کی حامل جماعت ہے ۔ بلاول بھٹو یہ بھی کہتے ہیں کہ 8 فروری کے انتخابات میں ایک بار پھر اس ملک پر چوتھی بار اس شخص کو وزیراعظم بنا کر مسلط کر دیا گیا تو ملک و قوم کا نقصان ہو گا ۔ اب ایک طرف بلاول نواز شریف پر تنقید کے تیر چلانے سے باز نہیں آ رہے تو دوسری طرف مسلم لیگ ن ہے کہ جو پیپلز پارٹی پر تنقید کر ہی نہیں رہی ۔ اس تمام تر صورتحال میں یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل ہو رہا ہے کہ کہیں نواز شریف اور آصف زرداری کے درمیان رابطوں میں فقدان تو نہیں یا پھر یہ ون سائیڈڈ لو اسٹوری ثابت ہو گی ۔
سیاسی جماعتوں کا موازنہ اپنی جگہ اگرچہ انتخابات بھی سر پر ہیں اور ایسے میں عوام سے ووٹ مانگنا ہر جماعت کا حق بھی ہے پھر چاہے وہ اپنے منشور سے مانگے یا کسی پر الزامات لگا کر یا پھر اپنی اہمیت جتا کر ۔ سابقہ ایم کیو ایم اور موجودہ ایم کیو ایم پاکستان کا شمار بھی ان جماعتوں میں ہوتا ہے کہ جب بھی کسی صاحب اقتدار جماعت کو قومی اسمبلی میں وزارت عظمیٰ کیلئے اکثریت درکار ہو تو اسے حمایت لینے کیلئے ایم کیو ایم کے در پر جانا ہی پڑتا ہے ۔ پھر چاہے سابق وزیراعظم عمران خان ہوں یا پھر شہباز شریف ۔۔ عددی اکثریت پوری کروانے میں ایم کیو ایم ہمیشہ فرنٹ فٹ پر ہی رہی ہے۔ جب ہی تو این اے 242 جیسے اہم حلقے سے امیدوار اور اپنی جماعت کے سینیئر ڈپٹی کنوینئر مصطفیٰ کمال نے بھی دل کی بات کرتے ہوئے اپنے مستقبل کی حکمت عملی بھی بتلا دی ۔ کہتے ہیں وزیراعظم جس کا بھی ہوا اس جماعت کو ایم کیو ایم کے ووٹ کی ضرورت ضرور پڑے گی ۔
اب سیاسی جماعتیں جو بھی بیانیہ عوام کے سامنے رکھیں آئندہ عام انتخابات کی ایک اہم بات یہ ہے کہ ملک میں نوجوان ووٹرز کی تعداد ساڑھے 5 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ ساڑھے 23 لاکھ نوجوان ووٹرز ہیں ۔ گزشتہ ماہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ووٹرز کی مجموعی تعداد 12 کروڑ 85 لاکھ سے زائد ہے ۔ اعداد و شمار کے مطابق 2018ء میں نوجوان ووٹرز کی تعداد ساڑھے 4 کروڑ سے زائد تھی ۔ تو اب نظر یہی آ رہا ہے کہ مستقبل کی قیادت کے انتخاب میں نوجوان ووٹر اہم کردار ادا کریں گے ۔